EN हिंदी
حور و قصور سے نہ بہشت بریں سے ہے | شیح شیری
hur-o-qusur se na bahisht-e-barin se hai

غزل

حور و قصور سے نہ بہشت بریں سے ہے

خاور رضوی

;

حور و قصور سے نہ بہشت بریں سے ہے
نازاں ہوں میں کہ میرا تعلق زمیں سے ہے

وقف فروغ رنگ‌ نظر اور دل بضد
پیراہن حیات دریدہ کہیں سے ہے

سجدوں کی ضو نہیں ہے تو زخموں کے پھول ہیں
باقی کوئی تو سنگ کا رشتہ جبیں سے ہے

کیا ذکر‌ بے رخی کہ یہ شیوہ ہے حسن کا
شکوہ مجھے تری نگۂ اولیں سے ہے

میں تیرا بانکپن ہوں مجھے ہاتھ سے نہ کھو
انگشتری کی زینت‌ و قیمت نگیں سے ہے

دھول اڑ رہی ہے دیدۂ خوننابہ بار میں
قائم اب اشک غم کا بھرم آستیں سے ہے

ہم بھاگتے پھریں یہ مروت سے ہے بعید
جب گردش جہاں کو عقیدت ہمیں سے ہے

آشوب روزگار نے یہ حال کر دیا
باتیں کہیں کی ہیں تو حوالہ کہیں سے ہے

خاورؔ کسی بھی رشتے کو حاصل نہیں ثبات
جز رشتۂ وفا جو دم واپسیں سے ہے