حسن کی جتنی بڑھیں رعنائیاں
عشق کے سر ہو گئیں رسوائیاں
اس نگاہ ناز کا عالم نہ پوچھ
چھو گئی جو قلب کی گہرائیاں
وہ حریم ناز میں بے چین ہیں
یاد آتی ہیں مری تنہائیاں
ان حسیں آنکھوں میں آنسو آ گئے
آہ میرے عشق کی رسوائیاں
محفل دنیا کو ٹھکرا دوں مگر
جلوہ فرما ہیں تری رعنائیاں
حسن کے دامن پہ دھبہ آ گیا
دور جا پہنچیں مری رسوائیاں
میرے قدموں میں ہے عیش جاوداں
تیرے غم کی ہیں کرم فرمائیاں
عشق کی فطرت ہے عارفؔ بے بسی
چل نہیں سکتیں تری خود آرائیاں

غزل
حسن کی جتنی بڑھیں رعنائیاں
محمد عثمان عارف