حسن ہر نونہال رکھتا ہے
کوئی تجھ سا جمال رکھتا ہے
مجھ سے ہو تیرے جور کا شکوہ
یہ بھلا احتمال رکھتا ہے
تجھ سے کچھ اپنا عرض حال کرے
دل کب اتنی مجال رکھتا ہے
ماہ کیا ہے کہ جس سے دوں تشبیہ
حسن تو بے زوال رکھتا ہے
جیتے جی اس سے عاشق مہجور
کب امید وصال رکھتا ہے
تو کہاں اور اس کا وصل کہاں
یہ خیال محال رکھتا ہے
جی میں بیدارؔ تیرے ملنے کا
آہ کیا کیا خیال رکھتا ہے
غزل
حسن ہر نونہال رکھتا ہے
میر محمدی بیدار