حسن ظن کام لیجے بد گمانی پھر سہی
بے تکلف اور کیجے مہربانی پھر سہی
آج جو بیتی ہے دل پر ماجرا اس کا سنو
داستان عشرت عہد جوانی پھر سہی
ظرف سے کم وقت سے پہلے نہیں ملتی یہاں
آج زہر غم ہی پی لو ارغوانی پھر سہی
تیغ کس کے ہاتھ میں تھی کون تھا سینہ سپر
یہ کہانی آج سن لو وہ کہانی پھر سہی
شمع فانوس طلب ہر رنگ میں روشن رہے
خوں فشانی کے مزے لو گل فشانی پھر سہی
ذہن کو مانوس کر دیتا ہے لفظوں کا طلسم
مدعا کہہ دیجئے جادو بیانی پھر سہی
کس میں ہمت ہے فریدیؔ کون یہ ان سے کہے
مسکرا کر حال سن لو لن ترانی پھر سہی
غزل
حسن ظن کام لیجے بد گمانی پھر سہی
مغیث الدین فریدی