حسن سرشار ترا داروۓ بے ہوشی ہے
ہوش میں کون ہے کس کو سر مے نوشی ہے
کچھ اگر بے ادبی ہووے تو معذور رکھو
صحبت میکشی و عالم بے ہوشی ہے
جوں ہلال آپ سے یکسر میں ہوا ہوں خالی
تجھ سے اے مہر لقا شوق ہم آغوشی ہے
بانگ گل باعث گردن شکنی ہے گل کی
غنچہ سالم ہے کہ جب تک اسے خاموشی ہے
سر چڑھا جائے ہے اے زلف کسو کی تو مگر
اس پری رو سے تجھے آج جو سرگوشی ہے
آپ ہو جائے ہے اس تیغ نگہ کے آگے
گرچہ آئینہ کے جوہر سے ذرا پوشی ہے
عمر غفلت ہی میں بیدارؔ چلی جانی ہے
یاد ہے جس کی غرض اس سے فراموشی ہے
غزل
حسن سرشار ترا داروۓ بے ہوشی ہے
میر محمدی بیدار