حسن مختار سہی عشق بھی مجبور نہیں
یہ جفاؤں پہ جفا اب مجھے منظور نہیں
زلف زنجیر سہی دل بھی گرفتار مگر
میں ترے حلقۂ آداب کا محصور نہیں
دل کا سودا ہے جو پٹ جائے تو بہتر ورنہ
میں بھی مجبور نہیں آپ بھی مجبور نہیں
دامن دل سے یہ بیگانہ روی اتنا گریز
تم تو اک پھول ہو کانٹوں کا بھی دستور نہیں
چند جام اور کہ میخانۂ جاں تک پہنچیں
ڈھونڈنے والے مجھے مجھ سے بہت دور نہیں
سب لباسوں میں ہیں پوشیدہ گناہوں کی طرح
دل بیباک بھی محفل کے تئیں اور نہیں
ہر سخن ہوش کا ہے مفتی حیران کے ساتھ
سب پئے بیٹھے ہیں اور کوئی بھی مخمور نہیں
سب رسن بستۂ آزادیٔ ایماں ہوئے
اب کوئی میرے سوا بندۂ مجبور نہیں
اس سے مل کر بھی اداس اس کی جدائی بھی گراں
دل بہ ہر حال کسی طور بھی مسرور نہیں

غزل
حسن مختار سہی عشق بھی مجبور نہیں
حسن عابد