EN हिंदी
حسن بے مہر کو پروائے تمنا کیا ہو | شیح شیری
husn-e-be-mehr ko parwa-e-tamanna kya ho

غزل

حسن بے مہر کو پروائے تمنا کیا ہو

حسرتؔ موہانی

;

حسن بے مہر کو پروائے تمنا کیا ہو
جب ہو ایسا تو علاج دل شیدا کیا ہو

کثرت حسن کی یہ شان نہ دیکھی نہ سنی
برق لرزاں ہے کوئی گرم تماشا کیا ہو

بے مثالی کے ہیں یہ رنگ جو باوصف حجاب
بے نقابی پر ترا جلوۂ یکتا کیا ہو

دیکھیں ہم بھی جو ترے حسن دل آرا کی بہار
اس میں نقصان ترا اے گل رعنا کیا ہو

ہم غرض مند کہاں مرتبۂ عشق کہاں
ہم کو سمجھیں وہ ہوس کار تو بے جا کیا ہو

دل فریبی ہے تری باعث صد جوش و خروش
حال یہ ہو تو دل زار شکیبا کیا ہو

رات دن رہنے لگی اس ستم ایجاد کی یاد
حسرتؔ اب دیکھیے انجام ہمارا کیا ہو