EN हिंदी
ہجوم غم سے مسرت کشید کرتے ہیں | شیح شیری
hujum-e-gham se masarrat kashid karte hain

غزل

ہجوم غم سے مسرت کشید کرتے ہیں

محمد یعقوب آسی

;

ہجوم غم سے مسرت کشید کرتے ہیں
کہ ہم تو زہر سے امرت کشید کرتے ہیں

انہوں نے پال رکھے ہیں زمانے بھر کے غم
مرے لہو سے جو عشرت کشید کرتے ہیں

ہماری فکر ابھی قید ہے ظواہر میں
ہم اپنے کام سے شہرت کشید کرتے ہیں

صدائیں ہم نے سنی ہیں جو شہر میں ان سے
اک ایک لفظ بغاوت کشید کرتے ہیں

میں ان کو دیکھ کے حیرت میں غرق ہوں آسیؔ
وہ میرے حال سے عبرت کشید کرتے ہیں