ہجوم غم میں کس زندہ دلی سے
مسلسل کھیلتا ہوں زندگی سے
قریب آتے ہیں لیکن بے رخی سے
پرانے دوست بھی ہیں اجنبی سے
فرشتے دم بخود ابلیس حیراں
توقع یہ کہاں تھی آدمی سے
نظام عصر نو یہ کہہ رہا ہے
اندھیرے پھیلتے ہیں روشنی سے
چلے آئے حرم سے مے کدے میں
پریشاں ہو گئے جب زندگی سے
لگی ہے آگ جب سے گلستاں میں
بہت ڈرنے لگا ہوں روشنی سے
نہ ہو جو ترجمان وقت رزمیؔ
بھلا کیا فائدہ اس شاعری سے
غزل
ہجوم غم میں کس زندہ دلی سے
مظفر رزمی