EN हिंदी
ہوئی نہ عکس رخ درد سے نجات مری | شیح شیری
hui na aks-e-ruKH-e-dard se najat meri

غزل

ہوئی نہ عکس رخ درد سے نجات مری

ممتاز راشد

;

ہوئی نہ عکس رخ درد سے نجات مری
بدل چکی ہے کئی آئنے حیات مری

کھلے تھے ہونٹ کہ وہ پاس سے گزر بھی گیا
بکھر کے رہ گئی موج ہوا میں بات مری

کبھی سکوت کبھی قہقہے کبھی آنسو
بدلتی رہتی ہے ہر لمحہ کائنات مری

چلو غموں کی کتابیں سپرد آب کریں
وہ کہہ رہا ہے کہانی ہے بے ثبات مری

سلگ رہی ہے ترے جسم کی مہک ہر سو
بدل گئی ہے ترے پیرہن سے رات مری

لرز رہا تھا تلاطم میں زرد سا پتہ
لکھی ہوئی تھی سمندر پہ واردات مری

نہ دب سکی کہیں راشدؔ مرے لہو کی صدا
ہر اک ہجوم میں تنہا رہی ہے ذات مری