ہوئے جب سے محبت آشنا ہم
نہیں لاتے زباں پر مدعا ہم
سعادت ہے جو بن جائیں جہاں میں
کسی مجبور دل کا آسرا ہم
چلائے تیر چھپ چھپ کر جنہوں نے
کریں گے ان کے حق میں بھی دعا ہم
مٹے گا داغ سجدہ کب جبیں سے
خدا جانے بنیں گے کب خدا ہم
ہمارے درمیاں کیوں فاصلے ہیں
کبھی سوچا نہ ہم نے مل کے باہم
خموشی مسلک صاحب دلاں ہے
کسی کو بھی نہیں کہتے برا ہم
ہماری روح نغمہ خواں رہے گی
فنا ہو کر نہیں ہوں گے فنا ہم
ہمیں ہے اعتماد اپنی وفا پر
نہیں کرتے کسی کا بھی گلا ہم
زمانہ ساز نکلے تم تو کیا ہے
ذرا سی بات کو کیا دیں ہوا ہم
اگر عزت نہ دی اہل حرم نے
اٹھا لائیں گے اپنا بوریا ہم
تصور بھی نہیں باقی خوشی کا
غم دنیا میں یوں ہیں مبتلا ہم
مسلسل خامشی کے بعد رفعتؔ
سر مقتل ہوئے ہیں لب کشا ہم
غزل
ہوئے جب سے محبت آشنا ہم
رفعت سلطان