ہوئے آج بوڑھے جوانی میں کیا تھے
جب اٹھے تھے زانو سے ہاتھ آشنا تھے
جہاں کی تو ہر چیز میں اک مزہ تھا
نہ سمجھے کہ کس شے کے ہم مبتلا تھے
نہ کافر سے خلعت نہ زاہد سے الفت
ہم اک بزم میں تھے پہ سب سے جدا تھے
نہ تھا میرے جنگل میں آزاد کوئی
بگولے بھی پابند زلف ہوا تھے
مزار غریب تأسف کی جا ہے
وہ سوتے ہیں پھرتے جو کل جا بہ جا تھے
بنا کر بگاڑا ہمیں کیوں جہاں میں
یہ سب حرف کیا سہو کلک قضا تھے
کئے آخری نالہ دو چار میں نے
وہی نالہ بانگ شکست درا تھے
خدا جانے دنیا میں کس کو تھی راحت
ہوسؔ ہم تو جینے سے اپنے خفا تھے
غزل
ہوئے آج بوڑھے جوانی میں کیا تھے
مرزا محمد تقی ہوسؔ