ہوتا نہیں ذوق زندگی کم
بنیاد حیات ہے ترا غم
احساس جمال ابھر رہا ہے
جب سے ترا التفات ہے کم
تیرے ہی غموں نے مجھ کو بخشی
کوندے کی لپک غزال کا رم
سامان ثبات ہیں سفر میں
امید کی پیچ راہ کے خم
شمعوں کی لویں ہیں یا زبانیں
آنسو ہیں کہ احتجاج پیہم
انجم سے کھلائے گی شگوفے
شبنم سے لدی ہوئی شب غم
طوفان کا منتظر کھڑا ہے
یہ عین سحر کو شب کا عالم
غزل
ہوتا نہیں ذوق زندگی کم
احمد ندیم قاسمی