ہوش کھو کر جوش میں کچھ اس طرح میں بہہ گیا
کیا مجھے کہنا تھا اس سے اور کیا کیا کہہ گیا
اس کی جانب دیکھ کر آخر یہ مجھ کو کیا ہوا
ایک سچ ہونٹوں پہ میرے آتے آتے رہ گیا
جو اثاثہ زندگی کا اس نے جوڑا عمر بھر
موت کا سیلاب جب آیا تو سب کچھ بہہ گیا
ظلم کی بنیاد پر اس نے بنایا تھا محل
صبر کی بس ایک ہی ٹھوکر سے وہ بھی ڈھہ گیا
تم نے تو آنسو ہی دیکھے ہیں تمہیں معلوم کیا
درد کا دریا مری آنکھوں سے ہو کر بہہ گیا
دوستی قائم رہے ہر حال میں یہ سوچ کر
دوستوں نے جو دیے وہ زخم ہنس کر سہہ گیا
زندگی نے ہر قدم پر نعمتیں تقسیم کیں
اور ساحلؔ عمر کے زیر و زبر میں رہ گیا
غزل
ہوش کھو کر جوش میں کچھ اس طرح میں بہہ گیا
محمد علی ساحل