ہونٹوں پر محسوس ہوئی ہے آنکھوں سے معدوم رہی ہے
پھلواری کی ''نگہت دلہن'' پھلواری میں گھوم رہی ہے
اس کا آنچل اور آویزے میرا ماتھا چوم رہی ہے
پھر بھی چشم بد طینت پر الفت لا معلوم رہی ہے
ہر میکش کی ذہنی لغزش اس محور پر گھوم رہی ہے
جیسے وہ سنبھلا بیٹھا ہے جیسے محفل جھوم رہی ہے
چننا ہے تو مسکانے سے پہلے چن لو کوئی کلی بھی
گلشن میں کھلنے سے پہلے تک بے شک معصوم رہی ہے
تم عشرت سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھو میں واقف ہوں
کس کس بیچارے کی خواہش نغموں سے محروم رہی ہے
اس سے اس سے میری بابت روزانہ سرگوشی یعنی
بنتے کیوں ہو میری حالت تم کو بھی معلوم رہی ہے
پینے والوں کے کہنے سے غم سے چھٹکارا پانے کو
پی کر بھی میری تنہائی مایوس و مغموم رہی ہے
عارض عارض صبح بہاراں گیسو گیسو شام نشیمن
وہ کیا جانے جس کی غفلت جلووں سے محروم رہی ہے
میں تخئیلی نخلستاں میں آنکھیں بند کیے بیٹھا ہوں
میری مستقبل اندیشی منزل منزل گھوم رہی ہے
ورنہ سیدھے سادے سجدے ورنہ سیدھی سادی حمدیں
دنیا کیا اور کیوں کے ہاتھوں بھاری پتھر چوم رہی ہے
ہمدردی کے منہ پر فن کی آنکھیں کھلتی ہیں اے شادؔ
گویا انسانی ہمدردی شاعر کا مقسوم رہی ہے
غزل
ہونٹوں پر محسوس ہوئی ہے آنکھوں سے معدوم رہی ہے
شاد عارفی