EN हिंदी
ہو گر ایسے ہی مری شکل سے بیزار بہت | شیح شیری
ho gar aise hi meri shakl se bezar bahut

غزل

ہو گر ایسے ہی مری شکل سے بیزار بہت

قائم چاندپوری

;

ہو گر ایسے ہی مری شکل سے بیزار بہت
تم سلامت رہو بندے کے خریدار بہت

ہم دگر جب خفگی آئی تو جھگڑا کیا ہے
تم کو خواہندہ بہت ہم کو طرح دار بہت

آج کے رونے میں جی ڈوب چلا تھا لیکن
نالۂ دل نے رکھا مجھ کو خبردار بہت

شیخ مجھ کو نہ ڈرا گور کے اندھیارے سے
ہجر کی کاٹی ہیں میں نے تو شب تار بہت

دیکھیے اب کی تب عشق سے کیوں کر بیتے
غالب آیا ہے طبیعت پہ یہ آزار بہت

سچ کہو قتل پہ کس کے یہ کمر باندھی ہے
ان دنوں ہاتھ میں تم رکھتے ہو تلوار بہت

قائمؔ آتا ہے مجھے رحم جوانی پہ تری
مر چکے ہیں اسی آزار کے بیمار بہت