ہو چکے گم سارے خد و خال منظر اور میں
پھر ہوئے ایک آسماں ساحل سمندر اور میں
ایک حرف راز دل پر آئنہ ہوتا ہوا
اک کہر چھائی ہوئی منظر بہ منظر اور میں
چھیڑ کر جیسے گزر جاتی ہے دوشیزہ ہوا
دیر سے خاموش ہے گہرا سمندر اور میں
کس قدر اک دوسرے سے لگتے ہیں مانوس زیبؔ
ناریل کے پیڑ یہ ساحل کے پتھر اور میں
غزل
ہو چکے گم سارے خد و خال منظر اور میں
زیب غوری