ہو چکا جو کہ مقدر میں تھا درماں ہونا
اب ترے ہاتھ ہے مشکل مری آساں ہونا
تھا جو مقسوم میں شرمندۂ احساں ہونا
غیر کے ہاتھ رہا دفن کا ساماں ہونا
حسن کا عشق کی وادی میں نمایاں ہونا
رمز تھا دن کو سر طور چراغاں ہونا
لذت درد جراحت تو مرے دل سے نہ پوچھ
پہلوئے زخم میں لازم تھا نمکداں ہونا
اک قیامت کا سماں تھا ترا اے صبح وطن
پردۂ شام غریباں کا نمایاں ہونا
خانہ بربادیاں ہر سمت سے گھیرے ہیں مجھے
در و دیوار پہ لکھا ہے بیاباں ہونا
امتحاں گاہ محبت میں نہ جانے کیا ہو
قہر کا سامنا ہے تیغ کا عریاں ہونا
آ رہی ہیں یہ امیدوں کی صدائیں پیہم
گو سفر سخت ہے لیکن نہ ہراساں ہونا
میری تربت بھی بنی ایسی زمیں پہ عالمؔ
جس کی تقدیر میں لکھا تھا بیاباں ہونا
غزل
ہو چکا جو کہ مقدر میں تھا درماں ہونا
میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی