حصار قریۂ آزار سے نکلتے ہوئے
یہ دل ملول تھا آزار سے نکلتے ہوئے
بڑی ہی دیر تلک دھوپ مجھ کو چھو نہ سکی
تمہارے سایۂ دیوار سے نکلتے ہوئے
کہ پھر سے تخت کو آنا تھا میرے قدموں میں
میں پر یقین تھا دربار سے نکلتے ہوئے
شعاع نور کے پھوٹے سے جاں لرزتی تھی
تمہاری گرمئ رخسار سے نکلتے ہوئے
تمہارے دھیان میں گم ہو گئی تھی مہکی ہوا
حدود جادۂ گلزار سے نکلتے ہوئے
میں لوٹ آیا تجھے چھوڑ کر مگر آدھا
وہیں رہا در و دیوار سے نکلتے ہوئے
فضا میں دیر تلک خوب جگمگاتے شمارؔ
وہ لفظ شوخئ گفتار سے نکلتے ہوئے
غزل
حصار قریۂ آزار سے نکلتے ہوئے
اختر شمار