EN हिंदी
حساب عمر کرو یا حساب جام کرو | شیح شیری
hisab-e-umr karo ya hisab-e-jam karo

غزل

حساب عمر کرو یا حساب جام کرو

سلیمان اریب

;

حساب عمر کرو یا حساب جام کرو
بقدر ظرف شب غم کا اہتمام کرو

اگر ذرا بھی روایت کی پاسداری ہے
خرد کے دور میں رسم جنوں کو عام کرو

خدا گواہ فقیروں کا تجربہ یہ ہے
جہاں ہو صبح تمہاری وہاں نہ شام کرو

نہ رند و شیخ نہ ملا نہ محتسب نہ فقیہ
یہ مے کدہ ہے یہاں سب کو شاد کام کرو

وہی ہے تیشہ بیاباں وہی ہے دار وحی
جو ہو سکے تو زمانے میں تم بھی نام کرو

خرام یار کی آہٹ سی دل سے آتی ہے
سرشک خوں سے چراغاں کا اہتمام کرو

اسیر زلف ہمیں اک نہیں ہیں میرؔ بھی تھے
مگر اب اٹھ کے دو عالم کو زیر دام کرو

اریبؔ دیکھو نہ اتراؤ چند شعروں پر
غزل وہ فن ہے کہ غالبؔ کو تم سلام کرو