حساب دوستاں در دل نہیں اب
پلٹنا باتوں سے مشکل نہیں اب
کیا کرتے تھے جو جاں بھی نچھاور
بھروسے کے بھی وہ قابل نہیں اب
سمندر کی حدیں بڑھنے لگی ہیں
نظر آتا کہیں ساحل نہیں اب
رہے تھے جو شریک غم شب و روز
خوشی دیکھی تو وہ شامل نہیں اب
قہر ڈھاتا رہا جو حسن جاناں
بہت افسوس وہ قاتل نہیں اب
برائی کرنا لا حاصل ہے لگتا
سنیں دو کان جو فاضل نہیں اب
بنیں بہتر بھی اب انسان کیسے
بنانے کو وہ آب و گل نہیں اب
بھلا طے بھی ہو یے رستہ تو کیسے
نگاہوں میں کوئی منزل نہیں اب
تساہل چھوڑیئے وقت عمل ہے
گزر پائے گی یوں کاہل نہیں اب
کریں کیا زندگی قربان اس پر
رہا جو زیست کا حاصل نہیں اب
غزل
حساب دوستاں در دل نہیں اب
عزیر رحمان