ہجر میں غم کی چڑھائی ہے الٰہی توبہ
کیا نصیبے کی برائی ہے الٰہی توبہ
کتنے کانوں کے وہ کچے ہیں کہ اللہ کی پناہ
کیا رقیبوں کی بن آئی ہے الٰہی توبہ
نالہ ہو آہ ہو فریاد ہو یا زاری ہو
یار تک سب کی رسائی ہے الٰہی توبہ
ہو چکا قتل جہاں تیغ بھی اٹھنے کی نہیں
کس قدر نرم کلائی ہے الٰہی توبہ
شیخ صاحب بھی نہیں بچ کے یہاں سے نکلے
کس قدر ان کو پلائی ہے الٰہی توبہ
دل لگی آپ سے کی خلق میں بدنام ہوئے
نیک نامی یہ کمائی ہے الٰہی توبہ
چاہ کر تم کو بھلا اور کو کیوں کر چاہوں
واہ کیا دل میں سمائی ہے الٰہی توبہ
لے گئے چھین کے دل میل نہیں چتون پر
کتنی دیدہ میں صفائی ہے الٰہی توبہ
بوسہ مانگا تو کہا شکر خدا اچھا ہوں
بات کیا جلد اڑائی ہے الٰہی توبہ
نہیں معلوم کہ کس شخص کا منہ دیکھا ہے
آج پھر غم کی چڑھائی ہے الٰہی توبہ
کوچۂ عشق کی سچ پوچھو تو ہم نے پرویںؔ
کس قدر خاک اڑائی ہے الٰہی توبہ
غزل
ہجر میں غم کی چڑھائی ہے الٰہی توبہ
پروین ام مشتاق