ہجر کا دن ہے یہ گزرنے دے
اے غم یار شام ڈھلنے دے
عمر تھوڑی ہے پیاس صدیوں کی
شبنمی رت سکوں سے مرنے دے
اس نے مانگا ہے مجھ سے اک تحفہ
اب تو جاں ہی یہ نذر کرنے دے
ہو جو ممکن تو ابر برسا دے
حدت غم میں ورنہ جلنے دے
جذبۂ شوق لو بھی دے گا اسے
پیکر صبر میں تو ڈھلنے دے
کوئی لمحہ تو ہو سخی ایسا
کاسۂ دید کو جو بھرنے دے
پھر اویس الحسنؔ میں یہ چاہوں
زندگی بام سے اترنے دے

غزل
ہجر کا دن ہے یہ گزرنے دے
اویس الحسن خان