EN हिंदी
ہجر کا دن ہے یہ گزرنے دے | شیح شیری
hijr ka din hai ye guzarne de

غزل

ہجر کا دن ہے یہ گزرنے دے

اویس الحسن خان

;

ہجر کا دن ہے یہ گزرنے دے
اے غم یار شام ڈھلنے دے

عمر تھوڑی ہے پیاس صدیوں کی
شبنمی رت سکوں سے مرنے دے

اس نے مانگا ہے مجھ سے اک تحفہ
اب تو جاں ہی یہ نذر کرنے دے

ہو جو ممکن تو ابر برسا دے
حدت غم میں ورنہ جلنے دے

جذبۂ شوق لو بھی دے گا اسے
پیکر صبر میں تو ڈھلنے دے

کوئی لمحہ تو ہو سخی ایسا
کاسۂ دید کو جو بھرنے دے

پھر اویس الحسنؔ میں یہ چاہوں
زندگی بام سے اترنے دے