ہزاروں رنج ملے سینکڑوں ملال ملے
ہم اپنے آپ سے جب بھی ملے نڈھال ملے
ہر ایک شخص سے ملنا کہاں مناسب تھا
ملے انہیں سے جہاں دل ملے خیال ملے
وفا کی راہ میں کس پر نہ تہمتیں آئیں
کوئی تو ایسی زمانے میں اک مثال ملے
نہیں ہے تیرے جہاں میں کوئی بھی شے ایسی
جسے عروج ملے اور نہ پھر زوال ملے
میں اپنے آپ سے باہر نکل نہیں پایا
جو تو ملا تو مجھے میرے حال چال ملے
جواب ڈھونڈنے نکلا جو کل مرا ماضی
لبوں پہ حال کے اس کو نئے سوال ملے
مری تلاش جہاں جا کے ختم ہو سالمؔ
کہیں تو ایسا کوئی صاحب کمال ملے
غزل
ہزاروں رنج ملے سینکڑوں ملال ملے
سالم شجاع انصاری