ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی
ہے تم سے بس یہی کہنا محبت مر نہیں سکتی
ترا ہر بار میرے خط کو پڑھنا اور رو دینا
مرا ہر بار لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
کیا تھا ہم نے کیمپس کی ندی پر اک حسیں وعدہ
بھلے ہم کو پڑے مرنا محبت مر نہیں سکتی
جہاں میں جب تلک پنچھی چہکتے اڑتے پھرتے ہیں
ہے جب تک پھول کا کھلنا محبت مر نہیں سکتی
پرانے عہد کو جب زندہ کرنے کا خیال آئے
مجھے بس اتنا لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
وہ ترا ہجر کی شب فون رکھنے سے ذرا پہلے
بہت روتے ہوئے کہنا محبت مر نہیں سکتی
اگر ہم حسرتوں کی قبر میں ہی دفن ہو جائیں
تو یہ کتبوں پہ لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
پرانے رابطوں کو پھر نئے وعدے کی خواہش ہے
ذرا اک بار تو کہنا محبت مر نہیں سکتی
گئے لمحات فرصت کے کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں
وہ پہروں ہاتھ پر لکھنا محبت مر نہیں سکتی

غزل
ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی
وصی شاہ