EN हिंदी
ہزار شکر کبھی تیرا آسرا نہ گیا | شیح شیری
hazar shukr kabhi tera aasra na gaya

غزل

ہزار شکر کبھی تیرا آسرا نہ گیا

سجاد باقر رضوی

;

ہزار شکر کبھی تیرا آسرا نہ گیا
مگر یہ ہے دل آدم کہ وسوسہ نہ گیا

وہ جب کہ زیست بھی اک فن تھی وہ زمانہ گیا
اب ایک چیخ کہ انداز‌ شاعرانہ گیا

بہت ہی شور تھا اہل جنوں کا پر اب کے
خرد سے آ کے کوئی زور آزما نہ گیا

چلی ہے اب کے برس وہ ہوائے شدت برف
دیار دل کی طرف کوئی قافلہ نہ گیا

بہت ہی سستی ہے بازار جاں میں جنس وفا
ارے یہ قحط طلب دل کا کارخانہ گیا

میں توڑ توڑ کے خود کو بناتا رہتا ہوں
اب ایک عمر ہوئی پھر بھی بچپنا نہ گیا

بس ایک گھونٹ محبت کا پی کے پچھتائے
تمام عمر وہ اک تلخ ذائقہ نہ گیا

کبھی بکھر گئے باتوں میں مثل نگہت گل
کبھی کلی کی طرح منہ سے کچھ کہا نہ گیا

گمان یہ تھا کہ بس دو قدم ہے اس کی گلی
قدم اٹھے تو یہی دو قدم چلا نہ گیا

میں ایک برگ خزاں دیدہ ہوں زمین کا بوجھ
ہوائے دہر ترے دوش پر اڑا نہ گیا

برنگ گل رہے ہم بھی مزاج دان بہار
بس ایک بار ہنسے پھر کبھی ہنسا نہ گیا

اب آؤ دن کی کہانی لکھیں کوئی باقرؔ
کہ رات ختم ہوئی رات کا فسانہ گیا