حیات کو تری دشوار کس طرح کرتا
میں تجھ سے پیار کا اظہار کس طرح کرتا
تھا میری صوت پہ پہرہ ''انا سپاہی'' کا
میں اپنی ہار کا اقرار کس طرح کرتا
اسے تھا پیار سے بڑھ کر خیال دنیا کا
یہ جان کر بھی میں اصرار کس طرح کرتا
ترا وجود گواہی ہے میرے ہونے کی
میں اپنی ذات سے انکار کس طرح کرتا
مجھے خبر تھی تجھے دکھ ملیں گے بدلے میں
قبول پھر میں ترا پیار کس طرح کرتا
تھا ہم سفر بھی سفر بھی جو میری منزل بھی
اسی کو راہ کی دیوار کس طرح کرتا
جو خود کو بیچنے بیٹھا تھا کوڑیوں کے عوض
میں اس کو اپنا خریدار کس طرح کرتا
غزل
حیات کو تری دشوار کس طرح کرتا
فرحت شہزاد