حیات عشق کی خورشید سامانی نہیں جاتی
مٹا جاتا ہے دل ذروں کی تابانی نہیں جاتی
جو کل تک کھیل سمجھے تھے ہمیں برباد کر دینا
اب ان مغرور نظروں کی پشیمانی نہیں جاتی
ہمیں پر لطف کی بارش ہے لیکن وائے نادانی
ہمیں سے وہ نگاہ لطف پہچانی نہیں جاتی
وطن کیا جرأت اہل جنوں سے ہو گیا خالی
خرد کی قوت تجدید ویرانی نہیں جاتی
بہار آئی کھلے غنچے مگر اے ناظم گلشن
ہمارے آشیاں کی شعلہ سامانی نہیں جاتی
مری صہبا کی عظمت صرف اہل دل سمجھتے ہیں
پئے جاتا ہوں لیکن پاک دامانی نہیں جاتی
یہ کس کافر ادا کا جلوۂ معصوم دیکھا ہے
رئیسؔ اب تک مری نظروں کی حیرانی نہیں جاتی

غزل
حیات عشق کی خورشید سامانی نہیں جاتی
رئیس نیازی