EN हिंदी
حیا بھی آنکھ میں وارفتگی بھی | شیح شیری
haya bhi aankh mein waraftagi bhi

غزل

حیا بھی آنکھ میں وارفتگی بھی

سلیمان خمار

;

حیا بھی آنکھ میں وارفتگی بھی
بدن میں پیاس لب پر خامشی بھی

دریچے بند ہوں اچھا ہے لیکن
ضروری ہے ہوا بھی روشنی بھی

میں واقف ہوں تری چپ گویوں سے
سمجھ لیتا ہوں تیری ان کہی بھی

پہن لیں لمس کی آنچیں کسی دن
پگھل جائے یہ حد آخری بھی

کیا کرتی ہے سجدے مجھ کو ٹھوکر
مقدس ہے مری آوارگی بھی

تمہیں کھو کر بھی تم کو پا چکا ہوں
مرا حاصل مری لا حاصلی بھی

یہی اک موڑ تک آنا بچھڑنا
یہی قسمت تمہاری بھی مری بھی