ہوا نے سینے میں خنجر چھپا کے رکھا ہے
یہ دیکھنا ہے کہ اب وار کس پہ کرتا ہے
خبر یہ عام ہے پھر بھی یہ کیسا پردہ ہے
کہ ٹوٹا آئنہ اس نے سنبھال رکھا ہے
زباں بھی چپ ہے فضا پر ہے خامشی طاری
ہے کس کا خوف تجھے کیوں کسی سے ڈرتا ہے
تمہارے پاؤں کے نیچے کہیں زمیں ہی نہیں
سفر کا کر کے تو کیسے ارادہ بیٹھا ہے
ہوئی ہے شام دریچوں پہ چاند چمکے ہے
ہے کس کا سایہ جو شب بھر سسکتا رہتا ہے
کہاں کہاں نہ پرندوں نے پنکھ پھیلائے
مگر یہ کیا کہ کسی شاخ پر ٹھکانا ہے
غزل
ہوا نے سینے میں خنجر چھپا کے رکھا ہے
صاحبہ شہریار