ہوا میں نوحے گھلے درد مشعلوں میں رہا
بہت عجیب سا دکھ تھا کہ بستیوں میں رہا
تمام پیڑ تھے ساحل پہ آگ کی زد میں
مرے قبیلے کا ہر فرد پانیوں میں رہا
بہت دلاسے دئے ہم نے شب گزیدہ کو
مگر وہ شخص کہ دن میں بھی وسوسوں میں رہا
وہی تھا آخری نقطہ مری لکیروں کا
ہر ایک قوس میں وہ سارے زاویوں میں رہا
یہ جانتے بھی کہ سارا سفر خلا کا ہے
بلا کا حوصلہ ٹوٹے ہوئے پروں میں رہا
بھری بہار ہرے خواب کے گلاب لئے
تمام عمر میں اجڑی ہوئی رتوں میں رہا
قریب آئے تو سورج بھی بجھ گئے قیومؔ
سیاہ برف کی صورت لہو رگوں میں رہا

غزل
ہوا میں نوحے گھلے درد مشعلوں میں رہا
قیوم طاہر