ہوا کی راہ نمائی پہ شک نہیں رکھتے
ہم اپنے پاؤں کے نیچے سڑک نہیں رکھتے
ہماری آنکھوں میں اک ایسا خواب سمٹا ہے
پئے سرور پلک پر پلک نہیں رکھتے
ہوا دہاڑ کے ٹکرائے بھی تو کیا حاصل
پہاڑ اپنے بدن میں لچک نہیں رکھتے
تم اس کو کند سمجھ کر نہ دھوکا کھا جانا
ہم اپنی تیغ انا پر چمک نہیں رکھتے
ہماری گلیوں میں ایسے بھی لوگ آتے ہیں
زمیں پہ پیر ہیں رکھتے دھمک نہیں رکھتے

غزل
ہوا کی راہ نمائی پہ شک نہیں رکھتے
شارق عدیل