EN हिंदी
ہوا کے رنگ میں دنیا پہ آشکار ہوا | شیح شیری
hawa ke rang mein duniya pe aashkar hua

غزل

ہوا کے رنگ میں دنیا پہ آشکار ہوا

کمار پاشی

;

ہوا کے رنگ میں دنیا پہ آشکار ہوا
میں قید جسم سے نکلا تو بے کنار ہوا

ستارے ٹوٹ کے تاریکیاں بکھیر گئے
یہ حادثا بھی سفر میں ہزار بار ہوا

بلندیوں پہ تھا محو سفر ہوا کی طرح
لباس خاک جو پہنا تو خاکسار ہوا

لہولہان ہوا بحر و بر کا ہر منظر
جو میری راہ میں آیا مرا شکار ہوا

تمام شہر نے مجرم مجھی کو گردانا
تمام شہر میں اک میں ہی سنگسار ہوا