دیے کا رخ بدلتا جا رہا ہے
ہوا کے ساتھ جلتا جا رہا ہے
تمہارے ہجر کی اس آنچ میں اب
ہمارا دل پگھلتا جا رہا ہے
تڑپ اٹھی ہے میری روح پھر سے
بدن سے تو نکلتا جا رہا ہے
نکالو اب مرے گھر سے ہی مجھ کو
یہ سناٹا نگلتا جا رہا ہے
قفس میں قید اک پنچھی کے جیسے
مرا کردار ڈھلتا جا رہا ہے
ہمارا ہجر بھی اب مسئلہ بن
زمانہ میں اچھلتا جا رہا ہے
اسے احساس ہے کیا میتؔ وہ اب
مرے ارماں کچلتا جا رہا ہے
غزل
دیے کا رخ بدلتا جا رہا ہے
امت شرما میت