EN हिंदी
ہوا چلی ہے نہ پتا کوئی ہلا اب تک | شیح شیری
hawa chali hai na patta koi hila ab tak

غزل

ہوا چلی ہے نہ پتا کوئی ہلا اب تک

آنند سروپ انجم

;

ہوا چلی ہے نہ پتا کوئی ہلا اب تک
وہی ہے ایک خموشی کا سلسلہ اب تک

وہ کون لوگ ہیں کس کی تلاش میں گم ہیں
ہمیں تو اپنا پتہ بھی نہیں ملا اب تک

تو اپنے چاہنے والوں سے آشنا نہ ہوئی
یہی تو تجھ سے ہے اے زیست اک گلا اب تک

کسی کا دامن صد چاک کیا رفو کرتے
کہ ہم سے اپنا بھی دامن نہیں سلا اب تک

وہی سفر وہی تارے وہی تھکن باقی
وہی ہے بجھتے چراغوں کا سلسلہ اب تک

پرانی بات میں کل کی سمجھ کے بھول گیا
مگر ہے زخم تمنائے دل کھلا اب تک

جسے میں ڈھونڈ رہا ہوں گلی گلی انجمؔ
وہ شخص مجھ سے بچھڑ کر نہیں ملا اب تک