حوصلے مایوس ذوق جستجو ناکام ہے
یہ دل نا محرم انجام کا انجام ہے
آنکھ کیا ہے حسن کی رنگینیوں کا آئنہ
دل ہے کیا خون تمنا کا چھلکتا جام ہے
دیجیے بیمار الفت کی جگر داری کی داد
نزع کا عالم ہے ہونٹوں پر تمہارا نام ہے
پھر وہ یاد آئے ہوئی مدہوش دل کی کائنات
پھر اٹھا درد جگر پھر کچھ مجھے آرام ہے
خاکدان دہر میں تسکین کا جویا نہ ہو
آہ جب تک دل دھڑکتا ہے کہاں آرام ہے
وہ تو دل میں درد کی دنیا بسا کر چل دئے
مجھ کو ہر تار نفس اک موت کا پیغام ہے
واصل مضراب خاموشی ہے ہر تار نفس
اس سے کہہ دو اب ترے بیمار کو آرام ہے
کر رہا ہوں دوستوں کے زعم پر ترک وطن
شاید اب آغاز دور گردش ایام ہے
غزل
حوصلے مایوس ذوق جستجو ناکام ہے
احسان دانش