ہٹا کے میز سے اک روز آئینہ میں نے
پھر اپنے آپ سے رکھا نہ واسطہ میں نے
جب اپنے آپ سے پہچان اپنی کھو کے ملی
تو خود ہی کاٹ دیا اپنا راستہ میں نے
میں کم سنی میں بھی گڑیا کبھی نہیں کھیلی
پلوں میں طے کیا برسوں کا فاصلہ میں نے
چراغ ہوں مجھے جب دھوپ راس آ نہ سکی
تو خود سکوڑ لیا اپنا دائرہ میں نے
میں اپنے آپ میں ہوں یا نہیں، کبھی اپنا
کسی کو ٹھیک بتایا نہیں پتہ میں نے
عجیب کیا جو بکھیرا نہیں سمیٹ کے پھر
تمام عمر امیدوں کا سلسلہ میں نے
غزل
ہٹا کے میز سے اک روز آئینہ میں نے
عزیز بانو داراب وفا