حسرتیں روتی رہیں دل میں مجاور کی طرح
دل مگر چپ ہی رہا لوح مقابر کی طرح
خشک پتوں کی طرح چھٹ گئے یاران کہن
پھر نہ پلٹے کبھی پت جھڑ کے مسافر کی طرح
آ تری مانگ میں کچھ اشک پروتا جاؤں
میں تو ہر چھاؤں سے گذروں گا مہاجر کی طرح
میں ہوں اک نقش قدم دشت فراموشی کا
بھول جاؤ گے مجھے تم بھی مسافر کی طرح
چارہ گر دور نہ جانا کہیں جی ڈرتا ہے
آج کی رات ہے گہری شب آخر کی طرح
دشمن مہر و وفا سے کوئی کرتا ہے نباہ
کون چاہے گا تجھے تیرے مصورؔ کی طرح
غزل
حسرتیں روتی رہیں دل میں مجاور کی طرح
مصور سبزواری