حسرت سکۂ بخیل نہ کر
اپنے کشکول کو ذلیل نہ کر
کچھ نہ بولیں گے مدعی کے خلاف
دوستوں کو کبھی وکیل نہ کر
بحث جاری رہے تو بہتر ہے
میرے دعوے کو بے دلیل نہ کر
میں فراست گزیدگی کا شکار
مجھ کو فرزانہ و عقیل نہ کر
ہاتھ اونچا رہے کشادہ رہے
جیب کو کیسۂ بخیل نہ کر
کوئی حد ہے تری ضرورت کی
زندگی یوں مجھے ذلیل نہ کر
رمزؔ قید حیات جھیل ابھی
اتنی عجلت مرے خلیل نہ کر

غزل
حسرت سکۂ بخیل نہ کر
رمز عظیم آبادی