حسرت عہد وفا باقی ہے
تیری آنکھوں میں حیا باقی ہے
بات میں کہنہ روایات کا لطف
ہاتھ پر رنگ حنا باقی ہے
ابھی حاصل نہیں ظالم کو دوام
ابھی دنیا میں خدا باقی ہے
بجھ گیا گر کے خنک آب میں چاند
سطح دریا پہ صدا باقی ہے
آنکھ میں اسم محمد کی مہک
ہونٹ پر حرف دعا باقی ہے
گوپیاں ہی کسی گوکل میں نہیں
بنسیوں میں تو صدا باقی ہے
پاؤں کے نیچے سرکتی ہوئی ریت
سر میں مسند کی ہوا باقی ہے
بیچ میں رات بچن بیتے ملن
اوٹ میں جلتا دیا باقی ہے
کربلا عفت انساں کی بقا
لٹ کے بھی تیری ردا باقی ہے
دیکھ یہ پھول یہ مہتاب نہ جا
رت میں رس شب میں نشہ باقی ہے
غزل
حسرت عہد وفا باقی ہے
ناصر شہزاد