حسینوں کے ستم کو مہربانی کون کہتا ہے
عداوت کو محبت کی نشانی کون کہتا ہے
یہ ہے اک واقعی تفصیل میری آپ بیتی کی
بیان درد دل کو اک کہانی کون کہتا ہے
یہاں ہر دم نئے جلوے یہاں ہر دم نئے منظر
یہ دنیا ہے نئی اس کو پرانی کون کہتا ہے
تجھے جس کا نشہ ہر دم لیے پھرتا ہے جنت میں
بتا اے شیخ اس کوثر کو پانی کون کہتا ہے
طریقہ یہ بھی ہے اک امتحان جذبۂ دل کا
تمہاری بے رخی کو بد گمانی کون کہتا ہے
بلا ہے قہر ہے آفت ہے فتنہ ہے قیامت کا
حسینوں کی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
فنا ہو کر بھی حاصل ہے وہی رنگ بقا اس کا
ہماری ہستئ فانی کو فانی کون کہتا ہے
ہزاروں رنج اس میں عرشؔ لاکھوں کلفتیں اس میں
محبت کو سرود زندگانی کون کہتا ہے
غزل
حسینوں کے ستم کو مہربانی کون کہتا ہے
عرش ملسیانی