حشر میں پھر وہی نقشا نظر آتا ہے مجھے
آج بھی وعدۂ فردا نظر آتا ہے مجھے
خلش عشق مٹے گی مرے دل سے جب تک
دل ہی مٹ جائے گا ایسا نظر آتا ہے مجھے
رونق چشم تماشا ہے مری بزم خیال
اس میں وہ انجمن آرا نظر آتا ہے مجھے
ان کا ملنا ہے نظر بندیٔ تدبیر اے دل
صاف تقدیر کا دھوکا نظر آتا ہے مجھے
تجھ سے میں کیا کہوں اے سوختۂ جلوۂ طور
دل کے آئینے میں کیا کیا نظر آتا ہے مجھے
دل کے پردوں میں چھپایا ہے ترے عشق کا راز
خلوت دل میں بھی پردا نظر آتا ہے مجھے
عبرت آموز ہے بربادئ دل کا نقشہ
رنگ نیرگئ دنیا نظر آتا ہے مجھے
غزل
حشر میں پھر وہی نقشا نظر آتا ہے مجھے
تاجور نجیب آبادی