EN हिंदी
حریم ناز کو ہم غیر کی محفل نہیں کہتے | شیح شیری
harim-e-naz ko hum ghair ki mahfil nahin kahte

غزل

حریم ناز کو ہم غیر کی محفل نہیں کہتے

واصف دہلوی

;

حریم ناز کو ہم غیر کی محفل نہیں کہتے
رقیبوں پر مگر وہ کون تھا مائل نہیں کہتے

جو رنج عشق سے فارغ ہو اس کو دل نہیں کہتے
جو موجوں سے نہ ٹکرائے اسے ساحل نہیں کہتے

اشارہ شمع کا سمجھا نہ پروانہ تو کیا سمجھا
منار راہ کو اہل نظر منزل نہیں کہتے

برنگ رشتۂ تسبیح دل سے راہ ہے دل کو
بھٹک جائے جو اس جادے سے اس کو دل نہیں کہتے

زلیخا کے وقار عشق کو صحرا سے کیا نسبت
جو خود کھینچ کر نہ آ جائے اسے منزل نہیں کہتے

مریض غم کی غفلت بھی کمال ہوشیاری ہے
جو گم ہو جائے جلووں میں اسے غافل نہیں کہتے

بھرم اس کا ہی اے منصور تو نے رکھ لیا ہوتا
کسی کا راز اے ناداں سر محفل نہیں کہتے