حریم دل میں اترتی ہیں آیتیں اس کی
لہو بھی کرنے لگا ہے تلاوتیں اس کی
قریب تھا تو رگ جاں سے بھی قریب رہا
بچھڑ کے تا بہ فلک ہیں مسافتیں اس کی
ہوئی ہے شاخ دل و جاں پہ خواہشوں کی نمو
لہو کے پھول کھلائیں گی قربتیں اس کی
اسی امید پہ خوابوں کی فصل بوئی ہے
کہ کشت دل میں اگیں گی بشارتیں اس کی
خیال رنگ ہوا چاندنی شفق خوشبو
ہزار رنگ میں دیکھوں میں صورتیں اس کی
نمو پزیر ہوں مجھ کو نہ چھوڑ اے دھرتی
مری جڑوں کو ابھی ہیں ضرورتیں اس کی
لہو تو جم گیا آنکھوں کی پتلیوں میں شکیبؔ
دکھائیں عکس بھلا کیا بصارتیں اس کی

غزل
حریم دل میں اترتی ہیں آیتیں اس کی
راغب شکیب