حرف غزل سے رنگ تمنا بھی چھین لے
میں جل رہا ہوں آتش نغمہ بھی چھین لے
بے برگ و بار ہو گیا امروز کا شجر
مجھ سے متاع گلشن فردا بھی چھین لے
میرے جنوں کو حاجت دیوار و در نہیں
گھر سے جدا ہوا ہوں تو سایہ بھی چھین لے
اب تو نشاط دید کا بھی سلسلہ گیا
یعنی دل و نگاہ کا رشتہ بھی چھین لے
چھینا ہے تو نے شام کے رخ سے سلونا پن
اب شہر آرزو سے اجالا بھی چھین لے
باقی رہے نہ دست تصرف میں کوئی شے
جو کچھ مجھے دیا تھا وہ حصہ بھی چھین لے

غزل
حرف غزل سے رنگ تمنا بھی چھین لے
حمید الماس