ہر سو اس کا چرچا ہونے والا ہے
موسم پھر سے اجلا ہونے والا ہے
بولے گا اوقات سے بڑھ کر وہ شاید
قد سے سایہ اونچے ہونے والا ہے
بات عموماً کرتا رہتا ہے سچ کی
جلدی ہی وہ تنہا ہونے والا ہے
نام پہ مذہب کے جمگھٹ ہے لوگوں کا
شہر میں شاید دنگا ہونے والا ہے
ہم بھی پہنچیں لے کر اپنی خاموشی
آوازوں کا سودا ہونے والا ہے
اتنا رویا ہوں میں اس کی یادوں میں
سارا پانی کھارا ہونے والا ہے
ہنس کے دیکھا ہے اس نے میری جانب
شوخؔ مرض اب اچھا ہونے والا ہے
غزل
ہر سو اس کا چرچا ہونے والا ہے
پروندر شوخ