ہر شعر غزل کا کہہ رہا ہے
تجھ کو بھی بچھڑ کے دکھ ہوا ہے
ہے شعلۂ جاں میں یاد تیری
کیا آگ میں پھول کھل رہا ہے
خورشید سحر طلوع ہو کر
شبنم کا مزاج پوچھتا ہے
کیا اس کو بتاؤں ہجر کے غم
جس پر مرا حال آئنہ ہے
میں کس سے کہوں فسانۂ غم
ہر ایک کا دل دکھا ہوا ہے
کیوں آ گئی درمیان دنیا
یہ تیرا مرا معاملہ ہے
کیا پاؤ گے بت سے فیض حافظؔ
پتھر بھی کہیں خدا بنا ہے

غزل
ہر شعر غزل کا کہہ رہا ہے
حافظ لدھیانوی