ہر شخص بد حواس خبر کے سبب سے تھا
کشتی میں انتشار بھنور کے سبب سے تھا
آنکھیں بدن بغیر اور آنکھوں میں ایک خواب
محرومیٔ مآل سفر کے سبب سے تھا
بینائی کے غبار سے منظر میں دھول تھی
وہ آئنہ سراب نظر کے سبب سے تھا
اتنا قلیل بوسہ کہ احساس لمس بھی
خود ساختہ نشے کے اثر کے سبب سے تھا
ورنہ سڑک کی میڑ ٹھہرتی قصوروار
صد امتنان حادثہ ڈر کے سبب سے تھا
کھڑکی سے روشنی کی وضاحت پہ یہ کھلا
دیوار کا جواز تو گھر کے سبب سے تھا
مٹی کے مرتبے کا کھلا اعتراف تھا
میرا زمیں کو بوسہ شجر کے سبب سے تھا
غزل
ہر شخص بد حواس خبر کے سبب سے تھا
سرفراز آرش