ہر شب خیال غیر کے مارے الگ تھلگ
آتے ہیں خواب میں وہ ہمارے الگ تھلگ
گر غیر ساتھ سایہ کے صورت نہ تھا تو کیوں
مثل صبا چمن سے سدھارے الگ تھلگ
بلبل وہ ہوں کہ فصل کے پہلے ہی باغباں
لیتا ہے باغ جس کا اجارے الگ تھلگ
دام بلا میں پھنستے ہیں آپ آ کے سیکڑوں
وہ بت ہزار بال سنوارے الگ تھلگ
اے گل تجھے کسی کی نہ مطلق خبر ہوئی
غنچے چٹک چٹک کے پکارے الگ تھلگ
خلوت میں بھی جو آئے ہیں جلوت کا ذکر کیا
بیٹھے ہوئے ہیں شرم کے مارے الگ تھلگ
پیش نظر شبیہ خیالی ہے اپنی شادؔ
نقشے جمے ہوئے ہیں ہمارے الگ تھلگ
غزل
ہر شب خیال غیر کے مارے الگ تھلگ
شاد لکھنوی