ہر سمت لہو رنگ گھٹا چھائی سی کیوں ہے
دنیا مری آنکھوں میں سمٹ آئی سی کیوں ہے
کیا مثل چراغ شب آخر ہے جوانی
شریانوں میں اک تازہ توانائی سی کیوں ہے
در آئی ہے کیوں کمرے میں دریاؤں کی خوشبو
ٹوٹی ہوئی دیواروں پہ للچائی سی کیوں ہے
میں اور مری ذات اگر ایک ہی شے ہیں
پھر برسوں سے دونوں میں صف آرائی سی کیوں ہے
غزل
ہر سمت لہو رنگ گھٹا چھائی سی کیوں ہے
فضیل جعفری